“It’s Okay”: The Power of Compassion and Understanding

Once, as I entered my home, I noticed a look of distress on my wife’s face. Trembling with fear, she confided, “My passport accidentally went through the washing machine with the laundry!” This news struck me like a bolt of lightning. I had an important trip planned in a few days. In that moment, as I prepared to unleash my wrath, a phrase emerged from my lips, “It’s okay…” And with those words, the atmosphere in our home transformed into one of tranquility.

The Redemption

Although the passport was indeed ruined, the first step was to get a new one. Instead of berating my wife or creating a tense atmosphere in front of our children, I chose to handle the situation with grace. The phrase “It’s okay” became a balm for my wife, who constantly worried about my well-being.

The Magic of “It’s Okay”

This simple phrase holds immense power. Whenever a friend or close relative shares a concern, I offer them the solace of “It’s okay.” The weight on their hearts immediately lifts, and healing begins. It’s a reminder that minor shortcomings don’t define a person’s worth, and that we all have the capacity to overcome them.

Nurturing Relationships

While addressing significant issues is crucial, sometimes, acknowledging small missteps with “It’s okay” helps build stronger bonds. When a child presents their report card, anxiously awaiting your reaction, a reassuring pat on the back and the words “It’s okay, try harder next time” can do wonders. It lightens their emotional load, providing a renewed sense of determination.

Teaching Resilience

I’ve taught my children a few prayers and the art of saying “It’s okay” repeatedly. I’ve experienced firsthand how this phrase can mend broken spirits. When they face challenges, a gentle reminder of “It’s okay, let’s try again” serves as a beacon of hope, instilling a fresh surge of confidence.

Turning a New Leaf

This phrase isn’t just for small blunders. It’s a remedy for profound losses and missed opportunities. When a believer utters “It’s okay” in acceptance of Allah’s will, they recite “Inna lillahi wa inna ilayhi raji’un” (Surely we belong to Allah and to Him shall we return). It signifies a surrender to Divine wisdom.

A Cautionary Note

While “It’s okay” can be a salve for minor wounds, it should never be a shield for wrongdoing or injustice. When someone faces exploitation or mistreatment, responding with “It’s okay” is unacceptable. It becomes a stain on the fabric of humanity.

Conclusion

In the end, “It’s okay” is a phrase worthy of adorning the walls of our hearts. It has the power to maintain open hearts, preserve relationships, and serve as a source of comfort in times of worldly loss. However, it should never become an excuse for complacency, indifference, or the neglect of accountability and compassion. In its rightful place, “It’s okay” is a balm for the soul, a testament to human resilience, and a beacon of hope in moments of adversity.

Now Read Story in Urdu

 

ایک بار میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بیگم کے چہرے کا رنگ خوف سے اڑا ہوا ہے۔ پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بتایا کہ “کپڑوں کے ساتھ میرا پاسپورٹ بھی واشنگ مشین میں دھل گیا ہے۔۔!، یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گِری، مجھے چند روز میں ایک ضروری سفر کرنا تھا۔ میں اپنے سخت ردعمل کو ظاہر کرنے ہی والا تھا کہ اللہ کی رحمت سے مجھے ایک بات یاد آ گئی، اور میری زبان سے نکلا “کوئی بات نہیں۔۔۔!” اور اس جملے کے ساتھ ہی گھر کی فضا نہایت خوشگوار ہو گئی۔

پاسپورٹ تو دھل چکا تھا، اور اب ہر حال میں اُس کو دوبارہ بنوانا ہی تھا، خواه میں بیگم پر غصے کی چنگاریاں برسا کر اور بچوں کے سامنے ایک بدنما تماشہ پیش کر کے بنواتا، یا بیگم کو دلاسہ دے کر بنواتا، جو چشم بد دور ہر وقت میری راحت کے لئے بے چین رہتی ہیں۔

سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس جملے سے بے حد پیار ہے، میں نے اس کی برکتوں کو بہت قریب سے اور ہزار بار دیکھا ہے۔ جب بھی کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے کوئی دل دکھانے والی بات سامنے آتی ہے، میں درد کشا اسپرے کی جگہ اس جملے کا دم کرتا ہوں، اور زخم مندمل ہونے لگتا ہے۔

اپنوں سے سر زد ہونے والی کوتاہیوں کو اگر غبار خاطر بنایا جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے، اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن “کوئی بات نہیں” کے وائپر سے دل کے شیشے پر چھائی گرد کو لمحہ بھر میں صاف کیا جاسکتا ہے، اور دل جتنا صاف رہے اتنا ہی توانا اور صحت مند رہتا ہے۔

بچوں کی اخلاقی غلطیوں پر تو فوری توجہ بہت ضروری ہے، لیکن ان کی چھوٹی موٹی معمولی غلطیوں پر “کوئی بات نہیں” کہہ دینے سے وه آپ کے دوست بن جاتے ہیں، اور باہمی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ بچہ امتحان کی مارک شیٹ لے کر سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا آپ کی پھٹکار سننے کا منتظر ہو، اور آپ مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمائیں “کوئی بات نہیں، اگلی بار اور محنت کرنا، چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں” تو آپ اندازه نہیں کر سکتے کہ بچے کے سر سے کتنا بھاری بوجھ اتر جاتا ہے، اور ایک نیا حوصلہ کس طرح اس کے اندر جنم لیتا ہے۔

میں نے اپنے بچوں کو کچھ دعائیں بھی یاد کروائی ہیں، ساتھ ہی اس جملے کو بار بار سننے اور روانی کے ساتھ ادا کرنے کی مشق بھی کرائی ہے۔ میرا بار بار کا تلخ تجربہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ جملہ بروقت زبان پر نہیں آتا، اور اس ایک لمحے کی غفلت کا خمیازه بہت عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، طبیعت بدمزہ ہو جاتی ہے، اور ایک مدت تک کڑواہٹ باقی رہتی ہے۔ تعلقات میں دڑار آجاتی ہے، اور برسوں تک خرابی باقی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہ جملہ یاد داشت کا حصہ بننے کے بجائے شخصیت کا حصہ بن جائے۔ ان شاءالله

وقفے وقفے سے پیش آنے والے معاشی نقصانات ہوں، یا ہاتھ سے نکل جانے والے ترقی اور منفعت کے مواقع ہوں، یہ جملہ ہرحال میں اکسیر سا اثر دکھاتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ “نقصان ہو جانا اور نقصان کو دل کا بوجھ بنانا یہ مل کر دو نقصان بنتے ہیں، جو ایک خساره ہو چکا وه تو ہو چکا، تاہم دوسرے خسارے سے آدمی خود کو بچا سکتا ہے، اس کے لئے صرف ایک گہری سانس لے کر اتنا کہنا کافی ہے کہ “کوئی بات نہیں۔۔!”

یاد رہے کہ یہ دوا جس طرح کسی چھوٹے نقصان کے لئے مفید ہے، اسی طرح بڑے سے بڑے نقصان کے لئے بھی کار آمد ہے۔ ایک مومن جب “کوئی بات نہیں” کو الہٰی رنگ میں ادا کرتا ہے، تو اُسے “انا اللہ وانا الیہ راجعون” کہا جاتا ہے۔

بسا اوقات ایک ہی بات ایک جگہ صحیح تو دوسری جگہ غلط ہوتی ہے۔ “کوئی بات نہیں” کہنا بھی کبھی آدمی کی شخصیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے، جیسے کوئی شخص غلطی کا ارتکاب کرے تو چاہئے کہ اپنی غلطی کے اسباب تلاش کر کے ان سے نجات حاصل کرے، نہ کہ “کوئی بات نہیں” کہہ کر غلطی کی پرورش کرے۔

خود کو تکلیف پہنچے تو آدمی “کوئی بات نہیں” کہے تو اچھا ہے، لیکن انسان کسی دوسرے کو تکلیف دے اور اپنی زیادتی کو “کوئی بات نہیں” کہہ کر معمولی اور قابلِ نظر انداز ٹھہرا لے، تو یہ ایک گِری ہوئی حرکت شمار ہوگی۔

اسی طرح جب کوئی ملک یا اداره مفاد پرستوں کے استحصال اور نااہلوں کی نااہلی کا شکار ہو رہا ہو اور “کوئی بات نہیں” کہہ کر اصلاح حال کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کر لی جائے، تو یہ ایک عیب قرار پائے گا۔

معاشره میں کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہو اور لوگ اس جملے سے اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں، تو یہ انسانیت کے مقام سے گرجانا تصور ہوگا۔

آخر میں صرف اتنا کہونگا کہ، “یہ جملہ دل کی دیوار پر آویزاں کرنے کے لائق ہوتا ہے، اگر یہ دل کی کشادگی برقرار رکھے، تعلقات کی حفاظت کرے اور دنیاوی نقصان ہونے پر بھی انسان کی تسلی کا سامان بنے۔

اور یہی جملہ مکروه اور قابل نفرت ہو جاتا ہے اگر یہ عزم بندگی، احساس ذمہ داری، احترامِ انسانیت اور جذبہ خود احتسابی سے غافل ہونے کا سبب بن جائے۔۔!

Scroll to Top