The Hidden Treasure: A Tale of Trust and Betrayal

Once upon a time, two friends, Akbar and Amjad, set out to the city to earn a living. When they had accumulated a substantial amount of money, they thought, “Why not spend some time with our families in our village?” With dreams of a happy life ahead, they embarked on their journey back to the village.

Upon reaching, Amjad voiced his concerns, “Akbar, times have changed. We must be cautious; there are thieves who might steal the fruit of our hard work.” This worried Akbar, who turned to Amjad, seeking advice on their next course of action.

Amjad suggested, “Why not bury this wealth under the old tree in the outskirts? No one will suspect a thing, and when we need it, we can dig it up ourselves.” Akbar knew that children often gathered under the tree to enjoy its fruits, and the village elders gathered in its shade for conversations.

However, the idea of safeguarding their fortune in such a secure location appealed to Akbar. So, they dug a hole under the tree and buried all their money there, confident that they could retrieve it whenever necessary.

Content and at ease, they returned home and slept peacefully. But one day, greed overcame Amjad. He thought, “Why not take all this wealth for myself?” Acting on his impulse, he dug up the treasure and reburied it in a different spot beneath his own house.

A few days later, Akbar found himself in need of some money. He remembered their agreement and approached Amjad, “I require some funds. Let’s retrieve the money tonight when everyone is asleep.”

Amjad agreed, but when they unearthed their treasure, they found it empty. Shock and disbelief washed over Akbar’s face, while Amjad struggled to find an explanation. “Perhaps someone saw us and stole it while we slept,” he suggested.

This perplexed Akbar, who considered involving the police. Amjad, however, dissuaded him, fearing they would be accused instead. He reasoned, “Why would someone bury money underground? The police will suspect us.”

Despite his doubts, Akbar agreed, suggesting, “Let’s call for a council meeting. Maybe someone in the village has seen something.” Still, Amjad’s behavior raised suspicions in Akbar’s mind. Had his childhood friend betrayed him?

As days passed, Akbar couldn’t shake off the feeling of betrayal. He couldn’t fathom how anyone outside of them could have known about their hidden wealth. Eventually, the council decided to visit the tree and inspect the site.

As they examined the area, they were baffled. How could someone have dug up such a spot, known for being frequented by children and elders alike? They wondered aloud, “Who could have stolen this wealth?”

Sardar, the village head, spoke up, “After all, who can steal treasure buried so securely?” His words echoed the confusion and disbelief that hung in the air.

In this tale of trust and betrayal, Akbar learned the importance of true friendship and the consequences of greed. The hidden treasure, once a symbol of their shared dreams, had become a bitter reminder of their shattered trust.

Now Read Story in Urdu

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو دوست اکبر اور امجد شہر پیسہ کمانے کے لئے گئے ۔
وہاں جاکر جب کافی پیسہ جمع کرلیا تو دونوں نے سوچا کیوں نہ کچھ وقت اپنے گاؤں جا کر گزارا جائے ۔
یہ سوچتے ہوئے کہ ان پیسوں کے ساتھ وہ اپنی فیملی کے ساتھ خوشحال زندگی گزاریں گے دونوں گاؤں کی طرف چل پڑے۔
گاؤں پہنچ کر امجد نے کہا دیکھو اکبر! آج کل زمانہ بہت خراب ہے ایسا نہ ہو کہ چور لٹیرے ہماری محنت کی کمائی لوٹ لیں۔
یہ سن کر اکبر پریشان ہوگیا اور امجد سے کہنے لگا کہ پھر تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کریں؟
امجد نے مشورہ دیا کیوں نہ اس دولت کو بیر کے درخت کے نیچے دبا دیا جائے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور ہمیں جب پیسوں کی ضرورت ہوگی ہم خود کھود کر نکال لیں گے۔
اکبر جانتا تھا کہ بیر کے درخت کے نیچے بیر کھانے کے لئے بچے جمع ہوتے رہتے ہیں اس کے علاوہ گاؤں کے بڑے بزرگ بھی اسی درخت کے چھاؤں میں گپیں مارتے تھے۔
اتنی محفوظ جگہ پر دولت سنبھالنے کے لئے اکبر بھی مان گیا اور یوں بیر کے درخت کے نیچے زمین کھود کر سارا پیسہ وہیں دفن کردیا گیا یا گار دیا گیا۔ دونوں میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ جب بھی کسی کو پیسے کی ضرورت ہوگی تو دونوں اکٹھے جا کر گڑھی ہوئی دولت کو نکالیں گے۔
دونوں بے فکر ہو کر اپنے گھر جاکر آرام سے سو گئے لیکن ایک دن امجد کے دل میں لالچ آگیا اس نے سوچا کیوں نہ ساری دولت وہ اکیلا ہرپ کر لے۔ یہی سوچ کر اس نے درخت کے نیچے گری ہوئی ساری دولت کو نکال لیا اور اپنے گھر کے نیچے دوسری جگہ دبا دیا۔
کچھ دن بعد اکبر کو کچھ پیسوں کی ضرورت ہوئی تو وہ طے شدہ شرط کے مطابق امجد کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ چلو آج رات جب سب سو جاتے جائیں تو ہم پیسے نکال لیتے ہیں۔
امجد مان گیا رات کو جب دونوں نے درخت کے نیچے کھدائی کی تو دیکھا ساری دولت چوری ہوگئی ہے۔
یہ دیکھ کر اکبر کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور وہ سر پیٹنے لگ گیا۔ اکبر کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہماری گڑھی ہوئی دولت کا راز کسی اور کو کیسے پتہ چل گیا لیکن امجد اس کی ڈھارس بندھانے لگ گیا اور کہنے لگا دوست شاید کسی نے ہمیں پیسے گاڑھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
اکبر کو حیرانی تو تب ہوئی جب اس نے پولیس بلانے کی بات کی تو امجد فوری کہنے لگا: ارے اس میں پولیس کیا کرے گی وہ چور کو تو پکڑے گی نہیں الٹا ہمیں ہی الزام دے گی۔
اور کہے گی کہ دولت زمین میں کیوں گاڑی تھی۔
امجد کی بات سن کر اکبر کو کچھ عجیب سا لگا، اسے کچھ شک سا ہوا تو کہنے لگا کہ چلو پولیس کو چھوڑو ہم پنچائت بلاتے ہیں ۔
مگر تب بھی امجد انا کانی کرنے لگا تو اکبر کا شک اور گہرا ہو گیا ۔
کیا اس کے بچپن کے دوست نے اس کو دھوکا دیا ہے؟
یہ بات رہ رہ کر اکبر کے دماغ میں گونجنے لگی۔ دل نہیں مان رہا تھا لیکن حالات اسی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
اگلے دن اکبر نے پنچایت بلالی۔
پنچایت نے دونوں کو اکیلے جا کر پوچھا بھی لیکن دونوں نے چوری کرنے سے انکار کردیا ۔
پنچایت بھی حیران تھی کہ جب ان دونوں کے علاوہ کسی کو دولت کا پتا ہی نہیں تھا تو چوری کس نے کی۔
آخرکار کچھ وقت سوچنے کے بعد پنچایت نے فیصلہ کیا کہ اس جگہ جا کر دیکھا جائے۔
پنچایت اور سب گاؤں والے اس بیر کے درخت کی طرف چل پڑے۔
کچھ دیر بعد ایک شخص بول اٹھا کہ امجد کہاں گیا ۔
سب امجد کو ادھر ادھر ڈھونڈنے لگے اور آپس میں سرگوشیاں بھی کرنے لگے۔
کچھ لوگوں کو وہ اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے ملا۔
پوچھنے پر کہنے لگا کہ وہ پانی پینے جا رہا تھا لیکن سب کو وہ کچھ گھبرایا گھبرایا سا محسوس ہوا ۔
امجد سوچنے لگا کہ کہیں انھیں شک نہ ہو جائے کہ اس نے چوری کی ہے۔ اس لیے جلدی سے بول اٹھا چلو سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے، ہم بھی وہیں چلتے ہیں ۔
ان کے وہاں پہنچنے کے بعد پنچایت والوں نے اچھی طرح اس جگہ کو دیکھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسی جگہ جہاں ہر وقت بھیر لگی رہتی ہے وہاں کون گڑھا کھود سکتا ہے ۔
اگر کھدائی رات کے وقت ہوئی ہے تو کسی اور کو کیسے پتہ چلا کہ یہاں دولت کو چھپایا پایا گیا ہے۔
کچھ سمجھ نہ آنے پر سردار بول اٹھا آخر دولت کون چوری کرسکتا ہے؟
اتنے میں درخت کے اوپر سے ایک طوطا بولنے لگا کہ امجد چور ہے، امجد چور ہے۔

Scroll to Top