The Unseen Impact: The Cycle of Begging and Its Economic Consequences

In our daily lives, we often encounter beggars, the destitute, and the marginalized. Our reactions to them usually fall into two categories: either we generously offer them substantial sums of money, or we give them a token amount just to make them go away. Unfortunately, both approaches are contributing to a severe economic drain on our nation.

The Begging Market:

A beggar starting at one corner of a market with a hundred shops might potentially accumulate 200 rupees if each shopkeeper donates just 2 rupees. However, reality rarely aligns with this ideal scenario. Some may give 1 rupee, some 2, and others 5 or 10. Meanwhile, patrons and passersby might also contribute, further fragmenting the earnings.

This isn’t an isolated market; beggars traverse various markets and neighborhoods throughout the day. Some individuals manage to amass thousands, reaching up to 15,000 or even 25,000 rupees per day. This is just one beggar’s story; there are thousands more like him.

The Begging Networks:

The beggars don’t operate in isolation. They often form organized groups, with hundreds joining their ranks. There’s a structured makeup, complete with a makeup department that applies makeup or disfigurements to create an appearance of injury. Rigorous training is provided, teaching them to make their eyes appear dense or to feign blindness convincingly. The more severely ‘disabled’ members are given priority seats as they yield higher returns.

The Economics of Begging:

Every month, millions, if not billions, of rupees flow into the coffers of beggars, the mesmerized, and the destitute. This is entirely unproductive expenditure, contributing nothing to the economy or society. For instance, even when you buy a 10-rupee comb, the government gets 1 rupee in sales tax, the shopkeeper earns 3 rupees, the company makes 4, and the remaining 2 cover packaging and marketing expenses. This money circulates, keeping the economy alive. In contrast, the rupee you give to a beggar leaves the economic cycle.

The Consequences:

By continually contributing to begging, we inadvertently exacerbate unemployment. We encourage individuals who could have been productive members of society to rely on charity for sustenance. These are people who spent their initial 20 years studying, then endured 5 years of job hunting, followed by 2-3 years of establishing job stability, all for a meager 20-25,000 rupees a month.

Additionally, the increase in beggar populations leads to further societal challenges. A beggar with three children, each proficient at ‘earning’, will push for more children to bolster their ‘income’. These additional children aren’t subject to income tax or contributing positively to the economy, leading to an ever-growing burden on society.

Conclusion:

The act of giving money to beggars, though well-intentioned, inadvertently fuels a vicious cycle of dependency and unproductivity. By understanding the economic implications of this practice, we can start to shift our efforts towards more sustainable and productive solutions for addressing poverty and destitution in our society. It’s time we reconsider our approach and work collectively towards building a more inclusive and economically vibrant nation.

 

Now Read Story in Urdu

ہم روزانہ اپنے ہاتھ سے معیشت کے چیتھڑے اڑا رہے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں ۔

کسی بھکاری ، فقیر ، ملنگ سے متعلق ہمارے ہاں دو قسم کی اپروچ ہوتی ہے :

✓ یا تو فراخ دلی سے اسے دس ، پچاس ، سو کا نوٹ دے دیا جاتا ہے ۔ اور کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں ۔

✓ یا پھر ” جان چھڑوانے کے لیے ” محض اسے ایک ، دو کا سکہ دے دیا جاتا ہے ۔۔۔ دکانداروں نے بھی الگ سے کچھ سکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ پورا دن جو فقیر آتے ہیں انہیں ایک دو روپیہ دے کر جان چھڑوائیں ۔

لیکن ۔۔۔۔

آپ کی یہ فراخ دلی یا رسمِ جان چھڑاوئی ملکی معیشت کے لیے سخت ضرر رساں ثابت ہورہے ہیں۔ 

∆ بھکاری چاہے گروہ کی صورت میں کام کررہے ہوں۔

∆ خاندان کی صورت میں ، کہ پورا خاندان مانگنے نکلا ۔

∆ یا انفرادی طور پر۔ 

بہرصورت ۔۔۔ روزانہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ ان بھکاریوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ 

ایک بھکاری مارکیٹ کے ایک کونے سے شروع کرے اگر اس مارکیٹ میں 100 دکانیں ہیں ، سب اسے محض 2 روپیہ بھی دیں تو بن جائے گا 200 روپیہ ۔۔۔۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ۔۔۔ کوئی 1 روپیہ دیتا ہے کوئی 2 کوئی 5 کوئی 10 تو اس دوران دکانداروں کے علاؤہ جو گاہک یا راہگیر وغیرہ دے دیں وہ الگ ۔۔۔ پھر یہ ایک مارکیٹ کی بات ہے ۔۔۔ اس نے صبح تا شام کئی مارکیٹیں ، کئی محلے گھوم جانے ہیں ۔۔۔ کئی فقیروں کی دھیاڑی ہزار ، پندرہ سو سے لے کر ، پندرہ بیس ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔ اور یہ میں بات کررہی ایک واحد فقیر کی ۔۔۔ پھر اس کا پورا بھک منگتا ٹبر ۔۔۔ ایسے دیگر ہزاروں ٹبر ۔۔۔ اور دسیوں لاکھ فقیر ۔۔۔

جو ہسپتالوں کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی ماہانہ کمائی لاکھوں تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔۔۔ جو درباروں ، خانقاہوں ، مساجد، منادر کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی کمائی کسی سرکاری ملازم سے زیادہ ہوتی ہے ۔۔۔

آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو ۔ بھکاریوں کی نشستوں کی بولیاں لگتی ہیں باقاعدہ ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ ایک بھکاری جو ایک ہسپتال کے باہر بیٹھ کر مانگتا ہے وہ اپنی جگہ کسی بھکاری کو چار پانچ لاکھ میں فروخت کر سکتا ہے ۔۔۔ بولیاں لگتی ہیں کہ کون زیادہ رقم دے گا وہی سیٹ خرید لے ۔۔۔

پھر ان کے گروہ ہوتے ہیں جن میں باضابطہ سینکڑوں لوگ شامل ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ایک باقاعدہ میک اپ ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے جس میں بھکاریوں کے چہرے پر جلنے جیسا میک اپ یا دیگر بگاڑ ظاہر کیے جاتے ہیں ۔۔۔ن باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے کہ آنکھوں کو اس طرح گھنا کر خود کو بھینگا یا نابینا ظاہر کرنا ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اس سے بھی بھیانک ۔۔۔ بچوں کو باقاعدہ معذور کرنے مثلاً ایک پاؤں کاٹ دینے والا بھی سیٹ اپ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بھیک ملے ۔۔۔ مصنوعی بینڈیج اور خون جس سے ظاہر ہو کہ بندہ زخمی ہے ۔۔۔ جسم پر برص جیسے مصنوعی نشانات ڈالنے سے لے کر مصنوعی لنگڑے پن کی تربیت تک بہت کچھ ۔

اور۔۔۔۔

آپ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں رقم دے کر ” صدقہ ” نکل رہا ہے جس سے ” بلائیں” ٹل جائیں گی ۔۔۔ بھئی آپ خود بلاؤں کو اپنی کمائی دے کر مزید بلائیں پیدا کررہے ہیں ۔۔۔

آپ ایک روپیہ دے کر اپنی جان نہیں چھڑوا رہے اپنے ملک کی معیشت کی جان عذاب میں ڈال رہے ہیں !!

۔۔۔۔۔۔

اب 2 باتیں ذہن نشین کریں :

اول-

ماہانہ کروڑوں یا اربوں روپیہ کو فقیروں ، مجذوبوں ، ملنگوں کے کھاتے جاتا ہے یہ مکمل طور پر ایک ایسا خرچہ ہے جس کا ملک یا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ آپ 10 روپیہ کا بال پین بھی خریدتے ہیں تو یہ ایک پروڈکٹو صرفہ ہے ۔۔۔ اس میں سے 1 روپیہ حکومت کو سیلز ٹیکس جائے گا ۔۔۔ 3 روپیہ دکاندار کا منافع ۔۔۔ 4 روپیہ کمپنی کو ۔۔۔ اور 1 روپیہ پیکنگ ، 1 روپیہ مارکیٹنگ سے متعلقہ اداروں کو ۔۔۔ یعنی یہ رقم سرکولیٹ کررہی ہے ۔ اور ایک ملک کی معیشت میں پیسہ کی حیثیت خون کی مانند ہے جو گردش میں رہے گا تو معیشت چلتی رہے گی ۔۔۔ اور معیشت شکن سرگرمیوں میں مقید ہو جائے گا تو معیشت جکڑی جائے گی ۔

اب آپ کا ایک روپیہ ملک کو کیسے تباہ کررہا ہے ۔۔۔۔؟

ایک تو اس سے آپ بےروزگاری کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ جسے صرف مانگ کر ہی مہینے کے پچاس سے اسی ہزار مل جائیں کیا وہ پاگل کا بچہ ہے کہ پہلے 20 سال پڑھے لکھے پھر 5 سال نوکری کے پیچھے دھکے کھائے پھر 2,3 سال خود کو نوکری میں مستحکم کرنے میں اور پھر عمر بھر پورا مہینہ کام کر کے بیس پچیس ہزار کمائے ۔۔۔؟

ساتھ ہی اربوں روپیہ ہر ماہ ایک اندھے کنویں کی نظر ہورہا ہے جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں!!

دوسری بات ، اس سے فقیروں کی تعداد مزید سے مزید بڑھے گی ۔۔ جس فقیر کے تین بچے خوب ” کمائی ” کررہے ہیں اس نے مزید چار پانچ پیدا کر لینے ۔۔۔۔ ان کی کمائی پر نہ کوئی انکم ٹیکس جاتا ہے نہ ہی کوئی اور معاشی فائدہ ۔

Scroll to Top