Title: The Dowry-Devouring Son-in-Law and the Obedient Husband

One day, a woman went to meet Professor Sahib. She began, “Sir… my son never listens to us. He holds his in-laws in high regard. It seems as if they have cast a spell on him and he’s under their control.”

Professor Sahib was a very kind-hearted man, but occasionally, he would become stern. Upon hearing the woman’s words, he asked, “Madam! Whose bed is in your son’s room?”

Woman: “That bed belongs to his wife, brought as part of her dowry.”

“And what about the one on which he sleeps?” he inquired.

Woman: “That was also part of the dowry brought by his wife.”

“And the sofa in his room?”

Woman: “That too was part of the dowry brought by my daughter-in-law.”

“And the dressing table he uses, from comb to mirror, all of it?”

Woman: “Yes, it all belongs to my daughter-in-law as well.”

“And the utensils he eats from, the glass he drinks water from?”

Woman: “Yes, they are all provided by my daughter-in-law.”

“And the comb he uses for his hair?”

Woman: “Yes, that too belongs to my daughter-in-law.”

“So, madam, when your son sleeps on the bed provided by his in-laws, sits on the sofa given by them, eats from the utensils they provided, drinks water from the glass they gave, and even uses the comb they provided, it seems you have exchanged him in lieu of these things. In fact, you might as well have sold him.”

The woman’s face turned crimson with embarrassment. She stammered, “Yes, all of these were part of her dowry…”

“So, madam, when he uses everything from the comb to the mirror, the bed, the sofa, the blanket, the shawl, all of it provided by someone else, you suddenly find it improper when he uses salt that belongs to him? It seems you’ve performed a magic trick on him.”

“If you have given birth to a son, and now seek a bride for him, at least let him create his own belongings. At least let him have some independence in his life. What loyalty and honor can you expect from someone who indulges in other people’s belongings?”

Now Read Story in Urdu

جہیز خور مرد سسرال کا فرمانبردار
ایک دن ایک خاتون ایک پروفیسر صاحب سے ملنے گئیں۔
کہنے لگیں سر۔۔ میرا بیٹا ہماری بات نہیں سنتا۔۔ وہ اپنے سسرالیوں کو بہت عزت دیتا ہے۔۔ اپنے ساس سسر اور بیوی کی بات بہت مانتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے جادو ٹونے کرکے اسے بس میں کر رکھا ہو۔
پروفیسر صاحب بہت شفیق انسان تھے لیکن کبھی کبھی جلالی مزاج میں آجاتے۔۔ بی بی کی بات سن کر پروفیسر صاحب ایک دم بولے
بی بی!
تمہارے بیٹے کے کمرے میں جو بیڈ ہے وہ کس کا ہے؟
عورت: جی وہ اس کی بیوی جہیز میں لائی تھی۔
اور جو اس پر بستر ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی جہیز میں لائی تھی۔
اور جو صوفہ اس کے کمرے میں رکھا ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی بہو جہیز میں لائی تھی۔۔
اور جو سیف الماری ہے ؟
جی وہ بھی اس کی بیوی کی ہے۔۔
اور جس برتن میں وہ کھانا کھاتا ہے پانی پیتا ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی اس کی بیوی کا ہے ۔۔۔
اور جس ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر وہ کنگھی کرتا ہے اس کنگھی، برش سے لے کر اس آئنے تک سب آپ کی بہو کا ہی ہوگا ۔
عورت کے چہرے پر اب کچھ شرمندگی کے آثار نمودار ہوئے ۔۔ جی وہ بھی میری بہو جہیز میں لائی تھی۔۔
تو بی بی
جب آپ کا بیٹا سوتا اپنے سسر کے دئیے ہوئے بستر پر ہے، وہ بیٹھتا اپنے سسر کے دیے ہوئے صوفے پر ہے، اسی کے دیے ہوئے برتنوں میں کھاتا ہے اسی کی دیے ہوئے گلاس میں پانی پیتا ہے بال بنانے کے لیے اسی کا دیا ہوا برش استعمال کرتا ہے۔۔۔
تو بی بی
بیٹا تو آپ کا نمک حلالی کر رہا ہے۔ آپ نے اسے درحقیقت ان چیزوں کے بدلے گروی رکھ چھوڑا ہے۔ بلکہ بیچ ہی رکھا ہے بی بی آپ نے اسے۔
جب وہ کنگھی سے لے کر گلاس تک کسی کا دیا ہوا استعمال کر رہا ہے بیٹھنے کے لیے صوفہ، بیڈ، بستر، کمبل، چادر سب دوسرے کا دیا ہوا استعمال کر رہا ہے تو خود داری تو اس کی اسی دن مار دی تم لوگوں نے جب یہ سب ٹرک بھر کر گھر لائے تھے۔۔۔۔
بی بی جادو تو تم نے خود کروایا اس پر اب جب وہ نمک حلالی کر رہا ہے تو آپ اعتراض کر رہی ہیں۔
اگر بیٹا پیدا کرلیا، شادی کے لیے لڑکی بھی ڈھونڈ لی تو سامان بھی خود بناتے کم از کم اس کی خودی تو زندہ رہتی۔
غیر کے سامان پر عیاشی کرنے والے سے آپ کونسی وفاداری اور غیرت کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔
پروفیسر صاحب کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ۔۔
ایسے لگ رہا تھا کہ وہ معاشرے کے ہر جہیز خور انسان کے منہ پر طمانچہ رسید کر رہا تھا

جہیز خور مرد سسرال کا فرمانبردار
ایک دن ایک خاتون ایک پروفیسر صاحب سے ملنے گئیں۔
کہنے لگیں سر۔۔ میرا بیٹا ہماری بات نہیں سنتا۔۔ وہ اپنے سسرالیوں کو بہت عزت دیتا ہے۔۔ اپنے ساس سسر اور بیوی کی بات بہت مانتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے جادو ٹونے کرکے اسے بس میں کر رکھا ہو۔
پروفیسر صاحب بہت شفیق انسان تھے لیکن کبھی کبھی جلالی مزاج میں آجاتے۔۔ بی بی کی بات سن کر پروفیسر صاحب ایک دم بولے
بی بی!
تمہارے بیٹے کے کمرے میں جو بیڈ ہے وہ کس کا ہے؟
عورت: جی وہ اس کی بیوی جہیز میں لائی تھی۔
اور جو اس پر بستر ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی جہیز میں لائی تھی۔
اور جو صوفہ اس کے کمرے میں رکھا ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی بہو جہیز میں لائی تھی۔۔
اور جو سیف الماری ہے ؟
جی وہ بھی اس کی بیوی کی ہے۔۔
اور جس برتن میں وہ کھانا کھاتا ہے پانی پیتا ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی اس کی بیوی کا ہے ۔۔۔
اور جس ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر وہ کنگھی کرتا ہے اس کنگھی، برش سے لے کر اس آئنے تک سب آپ کی بہو کا ہی ہوگا ۔
عورت کے چہرے پر اب کچھ شرمندگی کے آثار نمودار ہوئے ۔۔ جی وہ بھی میری بہو جہیز میں لائی تھی۔۔
تو بی بی
جب آپ کا بیٹا سوتا اپنے سسر کے دئیے ہوئے بستر پر ہے، وہ بیٹھتا اپنے سسر کے دیے ہوئے صوفے پر ہے، اسی کے دیے ہوئے برتنوں میں کھاتا ہے اسی کی دیے ہوئے گلاس میں پانی پیتا ہے بال بنانے کے لیے اسی کا دیا ہوا برش استعمال کرتا ہے۔۔۔
تو بی بی
بیٹا تو آپ کا نمک حلالی کر رہا ہے۔ آپ نے اسے درحقیقت ان چیزوں کے بدلے گروی رکھ چھوڑا ہے۔ بلکہ بیچ ہی رکھا ہے بی بی آپ نے اسے۔
جب وہ کنگھی سے لے کر گلاس تک کسی کا دیا ہوا استعمال کر رہا ہے بیٹھنے کے لیے صوفہ، بیڈ، بستر، کمبل، چادر سب دوسرے کا دیا ہوا استعمال کر رہا ہے تو خود داری تو اس کی اسی دن مار دی تم لوگوں نے جب یہ سب ٹرک بھر کر گھر لائے تھے۔۔۔۔
بی بی جادو تو تم نے خود کروایا اس پر اب جب وہ نمک حلالی کر رہا ہے تو آپ اعتراض کر رہی ہیں۔
اگر بیٹا پیدا کرلیا، شادی کے لیے لڑکی بھی ڈھونڈ لی تو سامان بھی خود بناتے کم از کم اس کی خودی تو زندہ رہتی۔
غیر کے سامان پر عیاشی کرنے والے سے آپ کونسی وفاداری اور غیرت کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔
پروفیسر صاحب کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ۔۔
ایسے لگ رہا تھا کہ وہ معاشرے کے ہر جہیز خور انسان کے منہ پر طمانچہ رسید کر رہا تھا

جہیز خور مرد سسرال کا فرمانبردار
ایک دن ایک خاتون ایک پروفیسر صاحب سے ملنے گئیں۔
کہنے لگیں سر۔۔ میرا بیٹا ہماری بات نہیں سنتا۔۔ وہ اپنے سسرالیوں کو بہت عزت دیتا ہے۔۔ اپنے ساس سسر اور بیوی کی بات بہت مانتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے جادو ٹونے کرکے اسے بس میں کر رکھا ہو۔
پروفیسر صاحب بہت شفیق انسان تھے لیکن کبھی کبھی جلالی مزاج میں آجاتے۔۔ بی بی کی بات سن کر پروفیسر صاحب ایک دم بولے
بی بی!
تمہارے بیٹے کے کمرے میں جو بیڈ ہے وہ کس کا ہے؟
عورت: جی وہ اس کی بیوی جہیز میں لائی تھی۔
اور جو اس پر بستر ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی جہیز میں لائی تھی۔
اور جو صوفہ اس کے کمرے میں رکھا ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی بہو جہیز میں لائی تھی۔۔
اور جو سیف الماری ہے ؟
جی وہ بھی اس کی بیوی کی ہے۔۔
اور جس برتن میں وہ کھانا کھاتا ہے پانی پیتا ہے وہ ؟؟؟
جی وہ بھی اس کی بیوی کا ہے ۔۔۔
اور جس ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر وہ کنگھی کرتا ہے اس کنگھی، برش سے لے کر اس آئنے تک سب آپ کی بہو کا ہی ہوگا ۔
عورت کے چہرے پر اب کچھ شرمندگی کے آثار نمودار ہوئے ۔۔ جی وہ بھی میری بہو جہیز میں لائی تھی۔۔
تو بی بی
جب آپ کا بیٹا سوتا اپنے سسر کے دئیے ہوئے بستر پر ہے، وہ بیٹھتا اپنے سسر کے دیے ہوئے صوفے پر ہے، اسی کے دیے ہوئے برتنوں میں کھاتا ہے اسی کی دیے ہوئے گلاس میں پانی پیتا ہے بال بنانے کے لیے اسی کا دیا ہوا برش استعمال کرتا ہے۔۔۔
تو بی بی
بیٹا تو آپ کا نمک حلالی کر رہا ہے۔ آپ نے اسے درحقیقت ان چیزوں کے بدلے گروی رکھ چھوڑا ہے۔ بلکہ بیچ ہی رکھا ہے بی بی آپ نے اسے۔
جب وہ کنگھی سے لے کر گلاس تک کسی کا دیا ہوا استعمال کر رہا ہے بیٹھنے کے لیے صوفہ، بیڈ، بستر، کمبل، چادر سب دوسرے کا دیا ہوا استعمال کر رہا ہے تو خود داری تو اس کی اسی دن مار دی تم لوگوں نے جب یہ سب ٹرک بھر کر گھر لائے تھے۔۔۔۔
بی بی جادو تو تم نے خود کروایا اس پر اب جب وہ نمک حلالی کر رہا ہے تو آپ اعتراض کر رہی ہیں۔
اگر بیٹا پیدا کرلیا، شادی کے لیے لڑکی بھی ڈھونڈ لی تو سامان بھی خود بناتے کم از کم اس کی خودی تو زندہ رہتی۔
غیر کے سامان پر عیاشی کرنے والے سے آپ کونسی وفاداری اور غیرت کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔
پروفیسر صاحب کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ۔۔
ایسے لگ رہا تھا کہ وہ معاشرے کے ہر جہیز خور انسان کے منہ پر طمانچہ رسید کر رہا تھا

Scroll to Top